The title of this substack is SBP Watch (and other hot takes) but it could just as easily have been Reza Baqir Watch. I like to think this is Reza Baqir sending a message to me
میرے بعد کِس کو ستاؤ گے
مجھے کِس طرح سے مٹاؤ گے
کہاں جا کر تِیر چلاؤ گے
میری دوستی کی بلایٔںں لو
مجھے ہاتھ اٹھا کر دُعایٔں دو
تمہیں ایک قاتل بنا دیا
And this is me sharing a couple of ghazals honouring him in his farewell.
ہم نے سب شعر میں سنوارے تھے
ہم سے جتنے سخن تمہارے تھے
رنگ و خوشبو کے حسن و خوبی کے
تم سے تھے جتنے استعارے تھے
تیرے قول و قرار سے پہلے
اپنے کچھ اور بھی سہارے تھے
جب وہ لعل و گہر حساب کیے
جو ترے غم نے دل پہ وارے تھے
میرے دامن میں آ گرے سارے
جتنے طشت فلک میں تارے تھے
عمر جاوید کی دعا کرتے
فیضؔ اتنے وہ کب ہمارے تھے
And this
وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی
نہ اپنا رنج نہ اوروں کا دکھ نہ تیرا ملال
شب فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی
محبتوں کا سفر اس طرح بھی گزرا تھا
شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی
عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی
بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل
غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی
کسے پکار رہا تھا وہ ڈوبتا ہوا دن
صدا تو آئی تھی لیکن کوئی دہائی نہ تھی
کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی بہت
کبھی یہ مرحلہ جیسے کہ آشنائی نہ تھی
عجیب ہوتی ہے راہ سخن بھی دیکھ نصیر
وہاں بھی آ گئے آخر، جہاں رسائی نہ تھی
Farewell my friend. You will be sorely missed.
If you want to read my summary of Reza Baqir’s three years at SBP, you can read it here. It’s long as I want it to be as comprehensive as possible.